Friday, 29 April 2016



.. صبر کا امتحان ..

ایک عورت کو اللّٰہ ہر بار اولادِ نرینہ سے نوازتا مگر چند ماہ بعد وہ بچہ فوت ہو جاتا۔ لیکن وہ عورت ہر بار صبر کرتی اور اللّٰہ کی حکمت سے راضی رہتی تھی۔ مگر اُس کے صبر کا امتحان طویل ہوتا گیا اور اسی طرح ایک کے بعد ایک اُس عورت کے بیس بچّے فوت ہوئے۔ آخری بچّے کے فوت ہونے پر اُس کے صبر کا بندھن ٹوٹ گیا۔ وہ آدھی رات کو زندہ لاش کی طرح اُٹھی اور اپنے خالقِ حقیقی کے سامنے سر سجدے میں رکھ کر خوب روئی اور اپنا غم بیان کرتے ہوئے کہا "اے کون و مکاں کے مالک.! تیری اِس گناہگار بندی سے کیا تقصیر ہوئی کہ سال میں نو مہینے خونِ جگر دے کر اِس بچّے کی تکلیف اُٹھاتی ہوں اور جب اُمید کا درخت پھل لاتا ہے تو صرف چند ماہ اُس کی بہار دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ آئے دن میرا دل غم کے حول کا شکار رہتا ہے کہ میرا بچّہ پروان چڑھے گا بھی کہ نہیں۔ اے دُکھی دلوں کے بھید جاننے والے.! مجھ بےنوا پر اپنا لطف و کرم فرما دے۔" روتے روتے اُسے اونگھ آ گئی۔ خواب میں ایک شگفتہ پُربہار باغ دیکھا جس میں وہ سیر کر رہی تھی کہ سونے چاندی کی اینٹوں سے بنا ایک محل نظر آیا جس کے اوپر اُس عورت کا نام لکھا ہُوا تھا۔ باغات اور تجلیات دیکھ کر وہ عورت خوشی سے بیخود ہو گئی۔ محل کے اندر جا کر دیکھا تو اُس میں ہر طرح کی نعمت موجود تھی اور اُس کے تمام بچّے بھی اُسی محل میں موجود تھے جو اُسے وہاں دیکھ کے خوشی سے جھُوم اُٹھے تھے۔ پھر اُس عورت نے ایک غیبی آواز سُنی کہ "تُو نے اپنے بچّوں کے مرنے پر جو صبر کیا تھا, یہ سب اُس کا اجر ہے۔" خوشی کی اِس لہر سے اُس کی آنکھ کھل گئی۔ جب وہ خواب سے بیدار ہوئی تو اُس کا سارا ملال جاتا رہا اور اُس نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے عرض کیا "یا الہٰی اب اگر تُو اِس سے بھی زیادہ میرا خُون بہا دے تو میں راضی ہوں۔ اب اگر تُو سینکڑوں سال بھی مجھے اِسی طرح رکھے تو مجھے کوئی غم نہیں۔ یہ انعامات تو میرے صبر سے کہیں زیادہ ہیں۔"
درسِ حیات: انسان کو ہر حال میں صبر کا دامن تھامے رکھنا چاہیے کیونکہ یہی چیز انسان کو اللّٰہ کے قریب کرتی ہے۔
حکایت نمبر 63, مترجم کتاب "حکایاتِ رومی" از حضرت مولانا جلال الدین رومی رح ..

No comments:

Post a Comment